کیا شوگر ریورس ہو سکتی ہے؟
ہم سالہا سال باقاعدگی سے بلا ناغہ دن میں تین وقت اہتمام کے ساتھ روٹی چاول اور بلا شمار سنیکس لیتے رہتے ہیں۔ یہ سب مرکزی طور پر ہائی کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں۔
حلوہ پوری ،روٹیاں ،پراٹھے، بسکٹ ،سموسے، جلیبیاں، چینی والی چائے اور دودھ ، سردیوں میں حلوے، مٹھاس سے بھرپور پنجیریاں ،شہد میں ترتراتے ڈرائی فروٹ یہ سب ہماری دانست میں بہت ہیلتھی چیزیں ہیں۔
یہی ہائی کاربوہائیڈریٹ ڈائٹ جب ضرورت سے زیادہ کیلوریز دیتی ہے جو ہم برن بھی نہیں کرتے تو خون میں چکنائی، کولیسٹرول ، شوگر سب کچھ ہی بڑھاتی ہیں۔ جگر پر چربی کی تہہ چڑھ جاتی ہے۔ جگر جس نے پورے جسم کے زہریلے مادے پراسیس کر کے جسم سے نکالنے ہیں وہی جگر اپنی افادیت کھونے لگتا ہے۔
ہمارے زیادہ تر امراض کی جڑ ہائی کاربوہائیڈریٹ ڈائٹ کھانا اور اس کو برن نہ کرنا ہے۔
معدہ ایک غبارے کی طرح ہے۔ جتنا زیادہ کھاتے جائیں گے یہ اتنا پھیلتا جائے گا۔ جب پھیل جائے گا تو اسے بھرنے کے لئے زیادہ کھانا درکار ہو گا۔اور زیادہ کھانا زیادہ کیلوریز لائے گا جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہیں اور جب ہم نے برن ہی نہیں کرنی تو چربی کی تہہ پر تہہ چڑھتی چلی جائے گا۔
اب یہاں انسولین ریززٹنس کی بات ہونی چاہیے لیکن اسے ایک الگ پوسٹ میں لکھوں گی۔ ورنہ یہ پوسٹ بہت لمبی ہو جائے گی۔
جب ہمارے اعضاء چربی سے ڈھکتے جاتے ہیں تو انکا کام متاثر ہونے لگتا یے۔ ہمارے پینکریاز پر بھی چربی چڑھ جاتی ہے وہ گلوکوز میٹابولزم کے لئے درکار انسولین صحیح سے فراہم نہیں کر پاتا۔ انسولین کی ڈیمانڈ زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ ہمارا حدود اربعہ بہت بڑھ گیا ہے پھر بہت زیادہ ورک لوڈ کی وجہ سے لبلبہ یا پینکریاز اپنے ہی سیلز کی تباہی سے دوچار ہو جاتا ہے۔
اب اس سچویشن میں جب ہم ڈاکٹر کے پاس پہنچتے ہیں تو ہونا تو یہ چاہئے کہ میڈیسن سے پہلے ڈاکٹر وزن کم کرنے کا کہے۔ وزن کم۔ہو گا تو لبلبے پر بوجھ کم ہو گا ۔ جتنا اسے ریلیف ملے گا اس کے ری سٹور ہونے کے چانسسز زیادہ ہیں۔ لیکن یہ کام جلدی ہی کرنا ہوتا ہے۔ ایک بار پینکریاز کے زیادہ سیل خراب ہو گئے تو انکو ریورس کرنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔
اب ڈاکٹر کیسے کہے کہ وزن کم کرو۔
وزن کم کرنے کے لئے ہائی کاربوہائیڈریٹ چھوڑنے ہوں گے۔ چینی چھوڑنی ہو۔ صرف غذائیت والی چیزیں کھانی ہوں گی۔ وہ چیزیں کھانی ہوں گی جو بلڈ گلوکوز کو بار بار سپائیک نہ دیں لیکن جسم کو مستقل انرجی دیتی رہیں۔
ریفائنڈ سفید آ ٹا غذائیت سے محروم اور کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور ہوتا ہے۔ ہمیں تو پوریاں ، سفید آ ٹے کے پراٹھے کھانے ہیں۔
مکمل اناج کی روٹی تو نگلنی مشکل ہو جاتی ہے۔ یہی حال سفید چاول کا ہے۔
ہمارے بچپن میں دیہات میں گھروں میں بڑی بڑی پتھر کی چکیاں رکھی ہوتی تھیں ۔ان چکیوں میں حسب ضرورت گندم پیس کر اس کی روٹی بنائی جاتی۔ یہ روٹی غذائیت کے اعتبار سے اچھی تھی کیونکہ اس میں فائبر اور گندم کی ساری غذائیت موجود ہوتی تھی۔
چھلکا آ ٹے کی شیلف لائف کم کرتا ہے لہزا الٹرا ریفائنڈ آ ٹے میں سے وہ اجزاء نکال لئے جاتے ہیں جو شیلف لائف کو کم کرتے ہیں لیکن وہ اجزاء تو ہمارے کام کے تھے ۔
اب ڈاکٹر کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ یہ ساری بحث آ پ سے کرے۔ ہم تو روٹی چاول کا نام سنتے ہی دفاعی موڈ میں چلے جاتے ہیں۔ جو یہ کہتا ہے کھل کر فیصلہ صادر کرتے ہیں بکواس کر رہا ہے۔
اب کچھ لوگ جو بزنس اینڈ مارکیٹنگ مائنڈ سیٹ کے ہیں وہ آ پکی شوگر ریورس کروانے کے لئے مہنگے کورس کروائیں گے یا کوئی ایسی پروڈکٹ بیچیں گے جو کھا کر یا پی کر آ پکے جملہ مسائل حل ہو جائیں گے۔
یہ سب کام آ پ خود کر سکتے ہیں۔
اگر ڈاکٹر نے شوگر کی میڈیسن لکھ دی ہے تو یہ نہ سمجھیں کہ اب جنم جنم کا ساتھ ہو گیا ہے۔ پہلے ایک گولی ، پھر دو گولی اور آہستہ آہستہ آ گے سے آ گے۔
پہلی بات شام کو ڈنر جلدی کر لیں۔ انسولین ہارمون دن کے وقت کام کرتا ہے رات کو آرام کرتا ہے۔ اس کے آ رام کے وقت میں کھا کھا کر اس کو بار بار بلا کر اسے نہ تھکائیں۔ صبح ناشتہ نہ کریں ۔ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کریں یعنی کھانے کی ایک ونڈو رکھیں بس اسی میں کھائیں۔ جسم کے ہارمون سسٹم اور جگر کو آ رام کر کے تازہ دم ہونے کا موقع دیں۔
لو کاربوہائیڈریٹ ڈائٹ لیں۔
ابلے انڈے کا گلائسیمک انڈیکس زیرو اور آ ٹے کا ستر کے قریب ہے۔ جو چیز بھی کھانی ہے گوگل پر اس کا گلائسیمک انڈیکس چیک کر لیں۔ آ پکو کم کارب والی چیزیں کھانی ہیں۔ روٹی اگر کھانی ہے تو مکمل اناج والی اور چھوٹی ہو۔ ہر کھانے میں فائبر کی موجودگی لازمی بنائیں ۔فائبر سبزیوں ، پھلوں ، اناج کے چھلکے وغیرہ میں ہوتا ہے۔
شوگر کی میڈیسن اکثر آ پکی بھوک کم کرتی ہے اس کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کریں۔ عادتا تین وقت کھانا کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جتنی بھوک ہے اتنا ہی کھائیں۔ یہ میڈیسن آ پ کا وزن بھی کم کرتی ہے کیونکہ آ پ کو بھوک کم لگ رہی ہے تو آ پ سنیکنگ بھی کم کر دیتے ہیں ۔ کوشش کریں کہ اپنی غذائی عادات کو تبدیل کر کے میڈیسن کی مدد سے وزن بھی کم کر لیں اور گلوکوز لیول بھی ٹھیک رکھیں۔
جب آپ اپنا سسٹم ٹھیک کر لیں گے تو ڈاکٹر کے مشورے سے میڈیسن چھوڑنے کی ہدایات لیں۔ اگر بلڈ پروفائل ٹھیک کر لیتے ہیں تو میڈیسن چھوڑی جا سکتی ہے ڈاکٹر کے زیر نگرانی۔
ہمارے ہاں بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ شوگر میڈیسن کو آزادی کا پروانہ سمجھا جاتا ہے ۔ سب کچھ کھاؤ کیونکہ دوائی تو کھا ہی لینی ہے ۔ دوائی خود ہی سنبھالے گی ہمارے ہائی کارب ان ٹیک کو۔
جی نہیں یہی کرتے رہے تو دوائی بے چاری کتنا کنٹرول کر لے گی اس کی ڈوز بڑھنی شروع ہو جائے گی۔
تو آ پ نے اپنا ٹارگٹ یہ رکھنا ہے کہ اپنی غذا تبدیل کر کے میڈیسن کی سپورٹ کے ساتھ اپنے معاملات درست کرنے ہیں۔
جو لوگ کہتے ہیں پندرہ دن میں ہماری دوائی چھوٹ گئی۔ وہ بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ کسی بھی غذائی تبدیلی اور میڈیسن کا اثر معلوم کرنے کے لئے تین ماہ کا وقت دیا جاتا ہے پھر چیک کیا جاتا ہے کہ کیا تبدیلی آ ئی۔
یہ سارا کام ڈاکٹر کے مشورے سے کرنا ہے اور اس کو بتانا ہے کہ آپکا یہ ارادہ ہے تا کہ وہ آ پکی مدد کرے۔
ورنہ ڈاکٹر کا کام ہے دوائی لکھنا ۔ آ پ کو خود کوشش بھی کرنی ہو گی اور اس کوشش میں مدد مانگنی ہو گی۔
اب یہ نہیں کہ تین مہینے لگا کر سب کچھ ٹھیک کیا اور پھر دوبارہ سے پرانی عادتوں پر آ گئے۔
لائف سٹائل چینج کا مطلب ہے کہ لائف سٹائل اب پہلے والا نہیں کرنا۔ سیلز کی ایک یادداشت ہوتی ہے وہ اتنی جلدی نہیں بھولتے کہ آ پ موٹے تھے۔ سب چیزیں اتنی جلدی ریورس نہیں ہو جاتیں ۔ دو سے آ ٹھ سال تک تو بالکل اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔
اس کے بعد ——–
اس کے بعد آ پکو ہیلتھی ایٹنگ کی عادت ہو جائے گی۔😊