مام دین
پروفیسر صاحب ایک روز بس میں سفر کر رہے تھے۔ ﮐﻨﮉﯾﮑﭩﺮ کرایہ لینے ان کے پاس آیا، یہ جیب میں ہاتھ ڈال رہے تھے کہ ﺳﺎتھ ﺑﯿﭩﮭﮯ مام دین ﻧﮯ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ لیا:
“ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﺑﻮ ۔۔۔ آپ کا ﮐﺮﺍﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺩوں گا”
پروفیسر نے ﺑﮩﺖ ﮐﮩﺎ مگر، چپ ہو گئے، شاید یہ ان کا کبھی شاگرد رہا ہو۔ اگلے ﺳﭩﺎﭖ ﭘﺮ مسافر اتر گیا۔ بس چلی تو علم ہوا کہ ان کا جیب کا صفایا ہو چکا تھا۔
اگلے روز پروفیسر صاحب ﻧﮯ ﺍُسے بازار میں دیکھا تو پہچان لیا۔ مام دین ان کے ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺎ:
“ﺑﺎﺑﻮ جی، ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩیں۔ میں گھر پہنچا تو میری گاے مر گئی”
پروفیسر صاحب نے ﻧﺮﻡ ﺩﻟﯽ کا مظاہرہ کیا، ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ مام دین چلا گیا۔ صاحب گھر پہنچے دیکھا وہ ﮔﻠﮯ ملتے ان کی جیب کا صفایا کر چکا تھا۔
ایک روز پروفیسر صاحب ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ اتفاق سے پھر مام دین نظر آ گیا۔ انہیں نے اسے پکڑ لیا۔ اس نے پروفیسر ﺳﮯ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﯽ، انہیں ﺳﺎﺭﮮ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﻮﭨﺎ ﺩئیے۔ اصرار کرکے ہوٹل سے ٹھندی بوتل پلائی، چپ چاپ نکل ﮔﯿﺎ۔
پروفیسر نے رقم گنی، پوری نکلی۔ وہ خوش خوش ہوٹل سے باہر نکلے، ان کی ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ موجود نہیں تھی۔
مزید دلچسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے ملاحظہ کریں:
سلمان یوسف 313 ویب سائٹ